ہفتہ 15 نومبر 2025 - 08:00
علامہ طباطبائی کے استاد آیت الله سید علی قاضی طباطبائیؒ کے حالات زندگی

حوزہ/ سید علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 13 ذی الحجہ 1285 ہجری قمری میں تبریز کے ایک دینی اور مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار ایک عالمِ دین تھے اور آپ کا خاندان قاضی خاندان کہلاتا تھا۔ سید علی قاضی کے نام کے آخر میں استعمال ہونے والا لفظ "قاضی" ان کا خاندانی لقب تھا جو نسل در نسل چلا آ رہا تھا۔ یہ قاضی خاندان آذری زبان سے تعلق رکھنے والا سلسلہ سادات ہے جو ایران کے قدیم اور اصیل ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔

تحریر: مصطفیٰ علی عرفانی (جامعۃالمصطفیٰ کراچی)

حوزہ نیوز ایجنسی|

ابتدائی زندگی اور خاندان

سید علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 13 ذی الحجہ 1285 ہجری قمری میں تبریز کے ایک دینی اور مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار ایک عالمِ دین تھے اور آپ کا خاندان قاضی خاندان کہلاتا تھا۔ سید علی قاضی کے نام کے آخر میں استعمال ہونے والا لفظ "قاضی" ان کا خاندانی لقب تھا جو نسل در نسل چلا آ رہا تھا۔ یہ قاضی خاندان آذری زبان سے تعلق رکھنے والا سلسلہ سادات ہے جو ایران کے قدیم اور اصیل ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔

مرحوم آیت اللہ قاضی کے جَدِّ امجد امیر عبدالوہاب خلفائے بنی عباس کے زمانے میں مدینہ منورہ سے ہجرت کر کے ایران آئے اور پھر آذربائیجان کے علاقوں میں پھیل گئے۔ دین مبین اسلام کی تبلیغ کی خاطر اس خاندان کی اہمیت کے پیش نظر، اسے اس دور میں شیخ الاسلامی اور قاضیتِ طباطبائی کا لقب دیا گیا، اور یہ لقب نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔

سید علی قاضی کے والد آیت اللہ سید حسین قاضی طباطبائیؒ

مرحوم آیت اللہ سید علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کے والد بزرگوار آیت اللہ سید حسین قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہور عالمِ دین تھے۔ آپ نجف اشرف، عراق سے فارغ التحصیل ہو کر تبریز آئے اور وہاں مدرسہ طالبیہ میں تدریس اور تبلیغ کا آغاز کیا۔

سید حسین قاضی طباطبائی، مشہور عالم میرزائے شیرازی رحمۃ اللہ علیہ (جنہوں نے تمباکو کی حرمت کا فتویٰ دیا تھا) کے شاگرد تھے۔ میرزائے شیرازی نے سید حسین قاضی کو اجازۂ اجتہاد عطا کیا تھا اور آپ نے سیر و سلوک اور تہذیبِ نفس میں وقت گزارا۔

جب آغا سید حسین تبریز واپس جانا چاہتے تھے، تو میرزائے شیرازی نے ان سے ملاقات کی اور کہا: دیکھو! میں تم سے 24 گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ مانگتا ہوں۔ 23 گھنٹے تم جہاں بھی استعمال کرنا چاہو کرو، لیکن ایک گھنٹہ تم اپنی ذات کے لیے وقف رکھو۔ اس میں تم باقاعدہ تہذیبِ نفس کے بارے میں سوچو، اپنے اعمال کا جائزہ لو، جسے ہم مراقبہ کہتے ہیں۔

مراقبہ سے مراد یہ ہے کہ انسان 23 گھنٹے کے اعمال کا جائزہ لینے کے لیے ایک گھنٹہ غور و فکر کے لیے مخصوص کرے: میں کہاں سے آیا ہوں؟ مجھے کیا کرنا ہے؟ کیا کر کے آیا ہوں؟ کون سے اعمالِ حسنہ تھے، کون سے اعمالِ قبیحہ؟ کتنے واجبات تھے، کتنے مستحبات، مکروہات اور حرام؟

یہ مراقبہ انسان کے باقی 23 گھنٹوں کے اعمال پر ناظر رہتا ہے، کیونکہ انسان کو یہ فکر رہتی ہے کہ رات کو وہ اس عمل کو اپنی کتاب میں کس زمرے میں تحریر کرے گا۔

کئی سال بعد، جب سید حسین قاضی تبریز واپس آ چکے تھے، تو تاجروں کا ایک کارواں عراق گیا اور میرزائے شیرازی سے ملاقات کی۔ میرزا نے سید حسین قاضی کے احوال پوچھے تو کارواں نے بتایا کہ وہ ایک گھنٹہ ان کے باقی 23 گھنٹوں پر بھی محیط ہو چکا ہے اور وہ اپنا تمام وقت مراقبے اور تہذیبِ نفس میں گزارتے ہیں۔

سید علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ ایسے ہی باوقار، دیندار اور تزکیۂ نفس کرنے والے والد کے فرزند تھے۔

تعلیم اور تربیت

سید علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت کا آغاز ان کے گھر سے ہی ہوا اور والدِ محترم پہلے مربی واقع ہوئے۔ آپ نے اپنے والد کے علاوہ "أوثَقُ الوَسائل" کے مصنف مرزا موسیٰ تبریزی اور مرزا محمود سے بھی استفادہ کیا۔

آپ کے والد ادبیاتِ فارسی اور عربی میں نہایت دلچسپی رکھتے تھے، لہٰذا انہوں نے اپنے فرزند کو مشہور شاعر مرزا محمد تقی تبریزی (تخلص: نیّر) کے پاس ادبیات سیکھنے کے لیے بھیجا، جن کا مشہور دیوان "دیوانِ نیر" کے عنوان سے معروف ہے۔ مرحوم علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کو چار ہزار عربی کلمات پر عبور حاصل تھا۔

خود آیت اللہ سید علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ابتدائی تربیت کے بارے میں کہتے ہیں: "یوں تو میں نے جوانی میں متعدد علماء سے استفادہ کیا، ان کی شاگردی کی، لیکن جو کردار میری تربیت میں میرے والد بزرگوار سید حسین طباطبائی تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے ادا کیا، وہ کسی دوسرے عالم کے ساتھ قابلِ مقایسہ نہیں ہے۔

نجف اشرف کا سفر

مرحوم علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ان کے اندر ہمیشہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حرم میں جانے کی تڑپ تھی، مگر وسائل نہیں تھے۔ جب والد بزرگوار بیمار ہوئے اور بسترِ بیماری پر چلے گئے، تو آپ کو والد کی جگہ مسجد میں امامت کروانے کے فرائض ادا کرنے پڑے۔

ایک روز والد نے آپ کو طلب کیا اور کہا کہ یہاں سے ایک کارواں نجف اشرف جانا چاہتا ہے اور انہوں نے ایک روحانی مبلغ کے عنوان سے آپ کا تقاضا کیا ہے۔ چونکہ یہ آپ کی دلی مراد تھی، لہٰذا آپ فوراً اپنی بیوی اور بچوں کو تیار کر کے نجف اشرف روانہ ہو گئے۔

نجف پہنچتے ہی آپ کو والد بزرگوار کے انتقال کی خبر ملی۔ والد کے انتقال کے بعد، علی قاضی طباطبائی نے نجف اشرف کو اپنی دائمی اقامت کا مرکز قرار دیا۔ آپ نے امیر المومنین علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا: "یا مولا! میں آپ کا مہمان ہوں۔ رسم تو یہ ہے کہ مہمان تین دن کا ہوتا ہے، لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ ساری زندگی آپ کا مہمان بنوں۔ آپ ہی میری اس میزبانی کو اپنے ذمے لیں اور میری مشکلات حل کریں۔"

نجف میں مشقت بھری زندگی

اس دور میں نجف اشرف میں زندگی گزارنا نہایت ہی دشوار تھا۔ کنویں کا پانی کڑوا ہوتا تھا، جبکہ میٹھا پانی (آبِ فرات) باہر سے مشکوں میں بھر کر آتا تھا، جسے "ماءُ الفُرات" کے عنوان سے صرف متمول اور صاحبِ حیثیت افراد ہی استعمال کر سکتے تھے۔

نجف کے لیے یہ مقولہ معروف تھا: مآءُ البِئْرِ وَ خُبْزُ الشَّعِیرِ وَ زِیَارَةُ الْأَمِیرِکنویں کا پانی، جو کی روٹی اور امیر کی زیارت

ان سختیوں کو دیکھتے ہوئے علی قاضی طباطبائی نے اپنی زوجہ سے کہا کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہیں نجف رہنا چاہیے یا واپس ایران چلے جانا چاہیے۔ زوجہ محترمہ، جو آغا قاضی کی دلی تڑپ سے واقف تھیں، نے جواب دیا کہ وہ ان کے ساتھ نجف میں ہی رہیں گی، واپس جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

نجف کے اساتذہ اور اجازۂ اجتہاد

نجف اشرف میں مرحوم علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نے کئی جلیل القدر اساتذہ سے استفادہ کیا، جن میں آغا مرتضیٰ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے مختصر مدت میں اس قدر محنت کی کہ متعدد اساتذہ نے آپ کو اجازۂ اجتہاد دے دیا، مگر آغا قاضی نے ان اجازات کو زیادہ اہمیت نہیں دی، کیونکہ وہ "کچھ اور لینے" کے لیے اس بارگاہ میں آئے تھے۔

مرحوم آیت اللہ طہرانی لکھتے ہیں کہ آغا قاضی رحمۃ اللہ علیہ فقہ، فہمِ روایت، تفسیر، علومِ قرآنی، ادبیاتِ عرب و فارسی میں بے نظیر شخصیت کے حامل تھے۔ آپ مسلم مجتہد تھے، اور بعض عرب آپ کی تقلید بھی کیا کرتے تھے، لیکن آیت اللہ قاضی ان عناوین کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔

علامہ طباطبائیؒ کا اعترافِ کمال

علامہ سید محمد حسین طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ (صاحبِ تفسیر المیزان) اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں:"میں نے تفسیر قرآن بالقرآن اور تفسیر قرآن بالحدیث کا فارمولا اپنے استاد مرحوم سید علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کے حضور میں سیکھا ہے۔

علامہ طباطبائی مزید تحریر کرتے ہیں کہ جب انہوں نے معقولات کے تمام علوم پڑھ لیے اور مرحوم ملا صدرا رحمۃ اللہ علیہ کی تمام تصنیفات کو زیر و رو کر لیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر آج خود ملا صدرا بھی موجود ہوتے تو ان کے پاس کوئی نیا مطلب نہیں ہوتا جو وہ انہیں تعلیم دیتے۔

"لیکن جب میں مرحوم سید علی قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردی میں جاتا ہوں، تو وہاں جا کر مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں نے مرحوم ملا صدرا رحمۃ اللہ علیہ کی 'حکمتِ مُتَعَالِیَہ' سے ایک کلمہ بھی نہیں سمجھا ہے، لہٰذا صفر سے دوبارہ مجھے حکمتِ متعالیہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔"

سیر و سلوک کی منزلیں

مرحوم علی قاضی طباطبائی کی سیر و سلوک میں یہ بات واضح ہے کہ آپ نے مرجعیت اور اجتہاد کے عناوین سے چشم پوشی کرتے ہوئے، مدارجِ عالیہ طے کرنے کی خواہش کی۔ آپ کو تمام دینی علوم میں مہارت حاصل تھی، مگر کبھی خود کو ان مسائل کی طرف متوجہ نہیں کیا، بلکہ ریاضتِ نفس اور سیر و سلوک کے مسائل میں کوشش کرنا شروع کی۔

سیر و سلوک کا مطلب ہے: چلنا، اور اپنے نفس کو جہادِ اکبر کے لیے تیار کرنا، اور ان مطالب کی طرف قدم بڑھانا جو انسان کو فنا فی اللہ اور بقاء باللہ کی طرف لے جائیں، یعنی خدائی رنگ میں رنگین ہونا۔

سیر و سلوک کے لیے شیعہ علماء کی روش اور تلقین یہی تھی کہ: واجبات پر عمل کیا جائے اور محرمات کو ترک کیا جائے۔ یہ ابتدائی شرط ہے جس پر قدم رکھنا اور آخری مرحلے تک پابند رہنا ضروری ہے۔ دوسرے مرحلے میں مستحبات پر عمل کرنے اور مکروہات سے اجتناب کی ترغیب دی جاتی تھی۔

سیر و سلوک کے ان تمام مراحل میں انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دائمُ الذکر ہو، یعنی صرف زبان سے ذکر نہ کرے، بلکہ ہمیشہ خداوند متعال کی ذات کی طرف متوجہ رہے۔ یہ توجہ ہی اسے ذاکر بناتی ہے، جو دائمی حضور کو درک کر لیتا ہے اور ہر قسم کے گناہ سے مبرا ہو کر عصمتِ نسبی کا مالک ہو جاتا ہے۔

ریاضت اور کم گوئی

مرحوم قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نهایت ہی کم گفتگو کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص محفل میں ان سے سوال بھی کر لیتا، تو کوشش کرتے تھے کہ خاموش رہیں اور محفل میں موجود دوسرے افراد جواب دیں۔

ایک شاگرد نے جب آپ کی زبان پر ایک سیاہ داغ دیکھا تو وجہ پوچھی۔ کئی بار اصرار کے بعد، ایک مرتبہ تنہائی میں مرحوم قاضی نے کہا: "میں نے سیر و سلوک کی منزلیں طے کرنے کے لیے بہت مشقت کی ہے۔ اور اپنی زبان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کہ اس سے کوئی ایسا گناہ سرزد نہ ہو جائے جس سے میرا حضور معصیت شمار ہو، میں نے 26 سال اپنے منہ میں ایک چھوٹا پتھر رکھا ہے، جس کی وجہ سے میری زبان پر یہ سیاہ نشان ہے، تاکہ میری زبان میرے کنٹرول میں ہو اور میں صرف انہی الفاظ کو اپنی زبان سے جاری کر سکوں جن میں خداوند متعال کی مرضات شامل ہو۔"

یہ واقعہ آپ کی ریاضت کی سختی اور اپنی زبان کو ارادے کے تابع قرار دینے کی کوشش کو واضح کرتا ہے۔

سادہ خوراک اور فقر

مرحوم قاضی طباطبائی کی زندگی میں خوراک نہایت ہی سادہ ہوا کرتی تھی۔ لکھنے والے اس مطلب کو بھی لکھتے ہیں کہ آپ بسا اوقات لقمہ اپنے ہونٹوں کے نزدیک لے جاتے اور پھر دوبارہ رکھ دیتے تھے کہ مرغن غذاؤں کی عادت ڈالنے سے میں خداوند متعال سے دور ہو جاؤں گا۔

رات کو سونے سے دو گھنٹہ پہلے جب کھانا تناول فرماتے تو صرف تین لقمے تناول کرتے، تاکہ رات کو شب بیداری اور مناجات کی لذت سے محروم نہ رہیں۔

آپ وجوہاتِ شرعیہ (خمس، زکوٰۃ، صدقات) سے بھی دوری اختیار کیا کرتے تھے اور انہیں استعمال نہیں کرتے تھے۔ حج کے ایام میں جب تاجر وجوہاتِ شرعیہ مرجعِ تقلید کو سپرد کرنے آتے، تو آپ نجف اشرف سے کوفہ کی طرف ہجرت کر جاتے اور ان ایام میں نجف نہیں آتے، تاکہ وجوہاتِ شرعیہ وصول کرنے سے گریز کر سکیں۔

فقر کا لباس

ایک سالک کے لیے حبِّ الٰہی کے لوازمات میں سے ایک فقر کا اختیار کرنا ہے۔ یہ فقر اس خاص معنی میں ہے کہ سالکِ الٰہی وہ ہوتا ہے جو صاحبِ تصرف ہو، مگر اپنا ہاتھ کسی کے سامنے نہ پھیلائے اور صرف خداوند متعال کے سامنے دستِ نیاز بلند کرے۔

اے انسانو! تم اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف فقیر ہو اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف محتاج ہو۔ خود اللہ تبارک و تعالیٰ 'غَنِیُّ الْحَمِید (بے نیاز اور قابلِ ستائش) ہےسورۃ فاطر15)

اہلِ بیت علیہم السلام کی محبت سے سرشار سالک دوسرے انسانوں کو بھی اپنی ہی طرح محتاج سمجھتا ہے، اور جب سب محتاج ہیں، تو وہ کسی مخلوق کے آگے دستِ نیاز بلند نہیں کرتا، بلکہ تمام امور کو مُسبِّبُ الْاَسْبَاب (اصل سبب) کی ذات کے سپرد کر دیتا ہے۔

۴۰ سال کی پائیداری اور فتحِ باب

مرحوم آیت اللہ نجابت اس مطلب کو لکھتے ہیں کہ آیت اللہ قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نے 40 سال مسلسل جدوجہد کی ہے اور اپنے مراد کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کی۔ خود آغا قاضی یہ کہتے ہیں کہ

میں 40 سال اچھی طرح سے سویا نہیں ہوں 40 سال میں نے اچھی طرح سے کھانا نہیں کھایا ہے، 40 سال مجھے کوئی اچھا دوست نہیں ملا ہے اور 40 سال مجھے کوئی اچھی طرح سے مکاشفہ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔

اس کے باوجود آپ نے صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا اور جدوجہد کو جاری رکھا۔ یہ محالات میں سے ہے کہ بندے کی طرف سے حرکت ہو اور خداوند متعال کی طرف سے اس کی مدد نہ ہو۔

آخر کار، 40 سال کی محنت کے بعد آپ کے لیے فتحِ بابِ کامل حاصل ہوا۔ اس فتحِ باب کا کم ترین مرتبہ یہ ہے کہ انسان کے آگے سے عالمِ برزخ کے پردے ہٹ جائیں اور وہ خدا کو اپنے وجود سے محسوس کرے۔ فیلسوف اپنے ذہن سے حقائق کو درک کرتا ہے، جبکہ عارف اپنے وجود سے ذاتِ پروردگار کو درک کرتا ہے۔

مرحوم قاضی رحمۃ اللہ علیہ کو فتحِ باب حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کے نورانی حرمِ مطہر میں حاصل ہوئی۔ خود اس سلسلے میں مرحوم قاضی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں۔

40 سال کے بعد جب میں غروبِ آفتاب کے وقت حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کے حرمِ مطہر میں داخل ہونے لگا، تو ایک دیوانہ شخص باہر نکل رہا تھا۔ وہ مجھے مخاطب کر کے میرے نام سے پکارتا ہے اور کہتا ہے: 'سید علی! آج سلسلۃُ الاَولیاء کے قطب اور قلب حضرت ابوالفضل العباس ہیں! میں اس کی بات کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔

میں حرم میں داخل ہوتا ہوں، زیارت کرتا ہوں، نمازِ زیارت پڑھتا ہوں، اور جیسے ہی مغرب کا وقت ہوتا ہے اور میں تکبیرۃُ الْاِحرَام کہتا ہوں، تو اس تکبیرۃ الاحرام کہنے سے تمام دنیا و مافِیْہَا میرے پس پشت چلی جاتی ہے اور میرے آگے سے تمام برزخ کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور برزخ میرے لیے کھل جاتا ہے۔

سالوں جس محبوب سے ملاقات کے لیے میں نے ریاضت کی تھی، اب میں اس کے حضور خود کو شرفیاب پا رہا ہوں، نور نے میرا احاطہ کر رکھا ہے۔

قرآن مجید اس مقام سے متعلق سورۃ السجدہ کی آیت نمبر 17 میں ارشاد فرماتا ہے(کوئی بھی نہیں جانتا جو ان کے لیے مخفی ہے اور ان کی آنکھوں کی روشنی کا باعث ہے، ان کے انجام شدہ اعمال کے نتیجے میں ان کے جزا کے طور پر انہیں وہ عطا کیا جائے گا۔)

عالمی شہرت کا واقعہ طی الارض

اولیاء اللہ کے مقامات اور مدارج ایسے ہوتے ہیں کہ وہ خود کو مخفی رکھتے ہیں، مگر بسا اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے کچھ ایسے افعال سرزد ہو جاتے ہیں جن کے باعث وہ اس دنیا میں شہرت پیدا کر جاتے ہیں۔ مرحوم علی آغا قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کی عالمی شہرت کی وجہ اور بنیاد بھی ایک ایسا ہی واقعہ تھا۔

ماجرا کچھ اس طرح سے ہوتا ہے: نجف اشرف میں ایک حاجی جواد نامی شخص تھا جو برتن بناتا تھا اور ان کی مرمت کرتا تھا۔ مرحوم قاضی کے فرزند جب ان کی قِتْریٰ (سماور) میں سوراخ ہو جاتا تھا تو اسی حاجی جواد کے پاس لے جاتے تھے۔ حاجی جواد محلے دار ہونے کی وجہ سے مرحوم قاضی کو اچھی طرح سے پہچانتا تھا۔

یہی حاجی جواد زیارتِ مشہدِ مقدس کے لیے پہنچا تو اس کا پاسپورٹ گم ہو گیا۔ وہ نہایت پریشان ہو کر بار بار پاسپورٹ آفس کے چکر لگاتا رہا مگر کسی نے اس کی بات نہیں سنی۔

حاجی جواد کہتا ہے کہ میں نہایت ہی مغموم اور شکستہ حالت میں حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے حرمِ مطہر میں توسل کے لیے مشرف ہوتا ہوں، زیارت کرنے کے بعد جیسے ہی باہر نکلتا ہوں تو صحن میں میری ملاقات علی آغا قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ سے ہو جاتی ہے۔

احوال پرسی کے بعد مرحوم قاضی پوچھتے ہیں: "آپ کیوں پریشان ہیں؟" حاجی جواد اپنا ماجرا بتاتا ہے۔ مرحوم قاضی فرماتے ہیں۔

اچھا، کل تم جاؤ پاسپورٹ آفس میں، فُلاں کمرے میں فُلاں آدمی بیٹھا ہوگا، اس کے پاس جاؤ، وہ تمہاری مشکل کو حل کر دے گا۔

اگلے روز حاجی جواد جاتا ہے اور اس کی مشکل حل ہو جاتی ہے۔ وہ شخص اسے ایک کاغذ پر مہر لگا کر دے دیتا ہے اور یہ عراق واپس آ جاتا ہے۔

عراق پہنچ کر وہ اپنے عزیز و اقارب کو یہ ماجرا بتاتا ہے، تو تمام رشتہ دار تعجب سے کہتے ہیں: "یہ کیسے ممکن ہے۔آغا قاضی تو یہیں نجف اشرف میں ہیں۔ یہ صرف 'طیُّ الْاَرض' (مسافت کا سمٹ جانا) کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ قاضی یہاں پر بھی ہوں اور طیُّ الارض کر کے زیارت کرنے کے لیے مشہد گئے ہوں، آپ کی مشکل بھی حل کی ہو اور واپس آ گئے ہوں۔

یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پورے نجف اور جہاں جہاں ان کے عزیز و اقارب تھے، پھیل گئی۔ حاجی جواد نے جب آغا قاضی سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ میری آپ سے مشہد الرضا میں ملاقات ہوئی تھی، لیکن علی آغا قاضی کہتے ہیں: "نہیں، میری تو آپ سے ملاقات نہیں ہوئی ہے، میں تو یہی نجف اشرف عراق میں مقیم ہوں، میں تو یہاں سے باہر نہیں گیا ہوں۔"

اس واقعے کے بعد لوگوں نے ان کی طرف رجوع کرنا شروع کیا، علماء نے، طلابِ علومِ دینیہ نے، مراجعِ تقلید نے اور عام بازاری لوگوں نے رجوع کرنا شروع کیا کہ یہ اللہ کا ولی ہمارے درمیان گھوم رہا ہے، اس سے ہمیں استفادہ کرنا چاہیے۔

فنائے تام کا مقام

مرحوم علی آغا قاضی طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ اس مطلب پر تاکید فرمایا کرتے تھے کہ جو سیر و سلوک کے ان مراحل سے عبور کرنا چاہتا ہے، اسے جذباتِ الٰہیہ کی ضرورت ہے۔ انسان اپنی محنت سے صرف کچھ حد تک خود کو مضبوط اور آمادہ کرتا ہے، تاکہ جذباتِ الٰہیہ اس سالک کو اپنی آغوش میں لے لیں۔

جب سالک اور عارف ان جذباتِ الٰہیہ کی لپیٹ میں آ جاتا ہے، تو پھر جذباتِ الٰہیہ ہی اسے عوالم کی سیر کرواتے ہیں اور مقامِ فنا، پھر فنائے حقیقی اور پھر فنائے تام تک منتقل کرتے ہیں۔ وہاں وہ اپنے رب کے جمال اور کمالِ اِطلاق کا مشاہدہ کرتا ہے۔

ایسے میں یہ سالک جب اس مقام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اپنی ہستی کو بھی اور اپنے غیر کی ہستی کو بھی جلا کر خاکستر کر دیتا ہے اور اپنے محبوب کے علاوہ کسی اور کو مشاہدہ نہیں کرتا۔

خود کو جلا دینے سے مراد یہ ہے کہ سالک اس عالمِ کثرت سے جدا ہو جائے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ نہ تو میں مستقل ہوں اور نہ ہی میرا غیر کسی بھی چیز میں استقلال رکھتا ہے۔ فاعلِ حقیقی خداوند متعال کو قرار دے اور یہ کلمہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ: لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللهِ (کوئی طاقت اور قوت نہیں مگر اللہ کی طرف سے) خود کو جلا کر خاکستر کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ سالک اس حقیقت تک پہنچ جائے کہ میری کوئی حقیقت نہیں ہے اور میرے غیر کی کوئی حقیقت نہیں، سوائے خداوند متعال کی حقیقت کے، جو ہر ہر لمحہ اپنی توجہ اور عنایت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

نتیجہ

علامہ سید علی قاضی طباطبائیؒ بیسویں صدی کے ان چند بزرگوں میں شامل ہیں جنہوں نے شیعہ دنیا کی فکری و روحانی بنیادوں کو نئی زندگی بخشی ہے۔ ان کی شخصیت علمی عظمت، روحانی کمال اور اخلاقی تربیت کا بہترین نمونہ تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ ان کے شاگردوں کا علمی قد ان کے اثرات کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha